انہیں دیکھ کر سب کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ واقعی امیرالمومنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی نگاہ کرامت نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ذات میں چھپے ہوئے کمالات کے جن انمول جوہروں کو برسوں پہلے دیکھ لیا تھا وہ اورکسی کو نظر نہیں آئے تھے۔
نگاہِ کرامت: حضور نبی کریم ﷺ کی وفات حسرت آیات کے بعد جو قبائل عرب مرتد ہوکر اسلام سے پھرگئے تھے‘ ان میں قبیلہ کندہ بھی تھا۔ چنانچہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس قبیلہ والوں سے بھی جہاد فرمایا اور مجاہدین اسلام نے اس قبیلہ کے سردار اعظم یعنی اشعث بن قیس کو گرفتار کرلیا اور لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر اس کو دربار خلافت میں پیش کیا۔ امیرالمومنین کے سامنے آتے ہی اشعث بن قیس نے بآواز بلند اپنے جرم ارتداد کا اقرار کرلیا اور پھر فوراً ہی توبہ کرکے صدق دل سے اسلام قبول کرلیا۔ امیرالمومنین نے خوش ہوکر اس کا قصور معاف کردیا اور اپنی بہن حضرت ’’ام فروہ‘‘ رضی اللہ عنہا سے اس کا نکاح کرکے اس کو اپنی قسم قسم کی عنایتوں اور نوازشوں سے سرفراز کردیا۔ تمام حاضرین دربار حیران رہ گئے کہ مرتدین کا سردار جس نے مرتد ہوکر امیرالمومنین سے بغاوت اور جنگ کی اوربہت سے مجاہدین اسلام کا خون ناحق کیا۔ ایسے خونخوار باغی اور اتنے بڑے خطرناک مجرم کو امیرالمومنین نے اس قدر کیوں نوازا؟ لیکن جب حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے صادق الاسلام ہوکر عراق کے جہادوں میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر ایسے ایسے مجاہدانہ کارنامے انجام دئیے کہ عراق کی فتح کا سہرا انہی کے سررہا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے دور خلافت میں جنگ قادسیہ اور قلعہ مدائن و جلولا و نہاوند کی لڑائیوں میں انہوں نے سرفروشی و جانبازی کے جو حیرتناک مناظر پیش کئے۔ انہیں دیکھ کر سب کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ واقعی امیرالمومنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی نگاہ کرامت نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ذات میں چھپے ہوئے کمالات کے جن انمول جوہروں کو برسوں پہلے دیکھ لیا تھا وہ اورکسی کو نظر نہیں آئے تھے۔ یقیناً یہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ایک بہت بڑی کرامت ہے۔ (ازالۃ الخفاء مقصد نمبر2 ص39)
اسی لیے مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام طور پر یہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے علم میں تین ہستیاں ایسی گزری ہیں جو فراست کے بلند ترین مقام پر پہنچی ہوئی تھیں۔ اول: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کہ ان کی نگاہ کرامت کی نوری فراست نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے کمالات کو تاڑ لیا اور آپ نے حضرت عمر کو اپنے بعد خلافت کیلئے منتخب فرمایا جس کو تمام دنیا کے مورخین اور دانشوروں نے بہترین قرار دیا۔ دوم: حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیوی حضرت صفورا رضی اللہ عنہا کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے روشن مستقبل کو اپنی فراست سے بھانپ لیا اور اپنے والد حضرت شعیب علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ اس جوان کو بطور اجیر کے اپنے گھر پررکھ لیں ۔ چنانچہ بعد میں حضرت شعیب علیہ السلام نے آپ کی خوبیوں کو دیکھ کر ان کے کمالات سے متاثر ہوکر اپنی صاحبزادی حضرت بی بی صفورا کا ان سے نکاح کردیا۔ سوئم: عزیز مصر کہ انہوں نے اپنی بیوی حضرت زلیخا کو حکم دیاکہ اگرچہ حضرت یوسف علیہ السلام ہمارے زرخرید غلام بن کر ہمارے گھر میں آئے ہیں مگر خبردار تم ان کے اعزاز و اکرام کا خاص طورپر اہتمام و انتظام رکھنا کیونکہ عزیز مصر نے اپنی نگاہ فراست سے حضرت یوسف علیہ السلام کے شاندار مستقبل کو سمجھ لیا تھا کہ گویا آج غلام ہیں مگر یہ ایک دن مصر کے بادشاہ ہوں گے۔ (تاریخ الخلفاء ص57، ازالۃ الخفاء مقصد نمبر2 ص23)
اشارہ سے دریا کی طغیانی ختم:ایک مرتبہ نہر فرات میں ایسی خوفناک طغیانی آگئی کہ سیلاب میں تمام کھیتیاں غرقاب ہوگئیں لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗکے دربار گوہر میں فریاد کی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فوراً ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کا جبہ مبارک و عمامہ مقدسہ و چادر مبارکہ زیب تن فرما کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور آدمیوں کی ایک جماعت جس میں حضرت امام حسن و امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے۔ آپ کے ساتھ چل پڑے۔ آپ نے پل پر پہنچ کر اپنے عصاء مبارک سے نہر فرات کی طرف اشارہ کیا تو نہر کا پانی ایک گز کم ہوگیا۔ پھر دوسری مرتبہ اشارہ فرمایا تو مزید ایک گز کم ہوگیا جب تیسری مرتبہ اشارہ کیا تو تین گز پانی اتر گیا اور سیلاب ختم ہوگیا۔ لوگوں نے شور مچایا کہ امیرالمومنین! بس کیجئے یہی کافی ہے۔ (شواہد النبوۃ ص 162)
گرتی ہوئی دیوار تھم گئی: حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک دیوار کے سائے میں ایک مقدمہ کا فیصلہ فرمانے کیلئے بیٹھ گئے۔ درمیان مقدمہ میں لوگوں نے شور مچایا کہ اے امیرالمومنین! یہاں سے اٹھ جائیے‘ یہ دیوار گررہی ہے۔ آپ نے نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ فرمایا کہ مقدمہ کی کارروائی جاری رکھو۔ اللہ تعالیٰ بہترین حافظ و ناصر و نگہبان ہے۔ چنانچہ اطمینان کے ساتھ آپ اس مقدمہ کا فیصلہ فرما کر جب وہاں سے چل دئیے تو فوراً ہی وہ دیوار گرگئی۔ (ازالۃ الخفاء مقصد2 ص273)
زناکار آنکھیں: علامہ تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’طبقات‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ ایک شخص نے راستہ چلتے ہوئے ایک اجنبی عورت کو گھور گھور کر غلط نگاہوں سے دیکھا۔ اس کے بعد یہ شخص امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس شخص کو دیکھ کر حضرت امیرالمومنین نے نہایت ہی پرجلال لہجہ میں فرمایا کہ تم لوگ ایسی حالت میں میرے سامنے آتے ہو کہ تمہاری آنکھوں میں زنا کے اثرات ہوتے ہیں۔ شخص مذکور نے (جل بھن کر) کہا کہ کیا رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ پر وحی اترنے لگی ہے؟ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ میری آنکھوں میں زنا کے اثرات ہیں؟ امیرالمومنین نے ارشاد فرمایا کہ میرے اوپر وحی تو نہیں نازل ہوتی ہے لیکن میں نے جو کچھ کہا ہے یہ بالکل ہی قول حق اور سچی بات ہے اور خداوند قدوس نے مجھے ایک ایسی فراست (نورانی بصیرت) عطا فرمائی ہے جس سے میں لوگوں کے دلوں کے حالات و خیالات کو معلوم کرلیا کرتا ہوں۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج2 ص862، ازالۃ الخفاء مقصد 2 ص227)
ابولبیب شاذلی
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں